top of page

معاشرے کی بے حسی، ایک اور بچے کی جان لے گئی!

کامران کی آواز - جویریہ صدیق | جسٹس نیوز اردو , پاکستان | جسٹس نیوز امریکہ | جولائی 24, 2022


11جولائی لاہور، ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) کے ایک گھر میں مالکان نے گھریلو ملازم کامران کو تشدد کا نشانہ بنا کر قتل اور اس کے چھوٹے بھائی کو زخمی کر دیا۔

جسٹس نیوز اردو کی رپورٹر سمیرہ رحمان نے ڈیفنس کے سب انسپکٹر غلام رسول سے ملاقات کی اور ان سے معاملہ کی نوعیت دریافت کی، جن کا کہنا ہے کہ انہیں ایک پرائیویٹ ہسپتال سے ہنگامی کال موصول ہوئی کہ ایک مردہ اور دوسرا شدید زخمی بچہ ہسپتال میں لایا گیا ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ جاں بحق ہونے والے لڑکے کے جسم پر تشدد کے گہرے نشانات ہیں جبکہ دوسرے لڑکے کی حالت تشویشناک ہے۔ اہلکار نے بتایا کہ نصراللہ اور اس کا بیٹا محمود الحسن جرم کو چھپانے کے لیے بچوں کو نجی اسپتال لے کر آئے۔ جبکہ ملزم ابوالحسن موقع سے فرار ہو گیا۔ نصراللہ اور محمودالحسن کو گرفتار کر لیا گیا جبکہ ابو الحسن کو دو دن بعد گرفتاری میں لیا گیا۔



پولیس نے بتایا کہ زخمی لڑکے کا کہنا ہے کہ محمود الحسن اور اس کا بھائی ابوالحسن چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر اسے اور اس کے بھائی پر تشدد کرتے تھے۔ زخمی بچے رضوان کا کہنا ہے کہ ملزمان نے انہیں ایک کمرے میں رسیوں سے باندھا اور تیز دھار آلات کا استعمال کرتے ہوئے انہیں شدید تشدد کا نشانہ بنایا، وہ کئی گھنٹے تک انہیں مارتے رہے جس کی وجہ سے اس کے بڑے بھائی کی موت ہو گئی، اس نے مزید کہا کہ خاندان کے دیگر افراد بشمول خواتین بھی وہاں موجود تھیں۔ پولیس نے فوری طور پر ملزم کے والد نصراللہ اور بھائی محمود الحسن کو گرفتار کر لیا اور اس کی والدہ کو بھی تفتیش میں شامل کیا۔ پولیس کا کہنا کہ کامران کے والد عرفان کو فون پر اطلاع دے دی گئی ،لیکن عرفان نے دوبارہ رابطہ نہیں کیا۔ عدالتی حکم سے بچے کو دو دن بعد دفن کردیا گیا۔ اور کامران چھوٹے بھائی رضوان او بہنوں کو چائلڈ پروٹیکشن کے حوالے کر دیا گیا ہے ۔

جسٹس نیوز اردو کی رپورٹر سمیرہ رحمان نے ملزم اور کامران کے باپ سے بھی ملاقات کی اور حقائق کو سامنے لے کر آئیں۔ زیادہ تر پاکستانی میڈیا نے الزام لگایا ہے کہ کامران کو اس لیے قتل کیا گیا کیونکہ اس نے ریفریجریٹر سے کھانا چرایا تھا۔ قاتل ابوالحسن نے اس الزام کی تردید کی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ کامران نے اس سے پیسے چرائے جو مکان کا کرایہ تھا۔ اور اس وجہ سے اس نے کامران کو اتنا مارا کے وہ جاں بحق ہوگیا۔ کامران کی چوری تو ثابت نہیں ہوئی لیکن ملزم کے اعتراف سے قتل ثابت ہوگیا۔


کامران کا قتل، طیبہ اور زہره شاه جیسے واقعات کی یاد دہانی کرواتا ہے۔ زہرہ شاہ کو 1 جون 2020 کو بحریہ ٹاؤن، راولپنڈی میں غلطی سے اپنے مالکان کے طوطے چھوڑنے پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور قتل کر دیا گیا۔ننھی گڑیا کی موت نے پاکستان میں شور مچا دیا اور قانون سازی میں تبدیلیاں کیں، جس نے پہلی دفعہ ملک میں بچوں کی گھریلو مزدوری کو غیر قانونی قرار دے دیا۔


پنجاب پولیس کی ٹوئٹ کے جواب میں بہت سے لوگوں نے سوال اٹھائے۔ کہاں ہیں وہ قانون جس نے زہرہ شاہ کے قتل کے بعد پہلی دفعہ ملک میں بچوں کی گھریلو مزدوری کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔ کیا کر رہے ہیں بچوں کو تحفظ دلانے والے (Child Protection) ادارے؟


حقائق کو سامنے لانے میں جسٹس نیوز اردو نے جو اقدامات اٹھائے ہیں وہ گم شدہ آوازوں کی قسط نمبر3 میں ملاحظہ کیجئے۔ مزید تفصیلات کے لیے دیے گئےلنک پر کلک کیجیے۔







bottom of page