ایک کہانی - احمد نے جب سوچنا سیکھا
"غیب سے مدد " - کہانی نمبر 1 - عمران صدیقی.
سلام بچوں !
ہمیں امید ہے کہ آپ جہاں کہیں بھی ہوں اور ہمیں سن رہے ہوں، تو ساتھ خیریت کے ہوں ،اور اپنی صحت اور کھانے پینے کا خاص خیال رکھ رہے ہوں گے ، کیونکہ اصلی غذا ہمارے جسم کے لیے بہتر ہے ۔
یہ تو بہت ہی اچھا ہوا ،کہ آپ کے ممی ڈیڈی یا ابو امی یا پھر کسی قریبی دوست نے آپ کو ہماری "ایک کہانی" سے تعارف کروا دیا ، اب آپ کو اپنا وقت گزارنے کے لئے جنک فوڈ , ویڈیو گیمز یا پھرصرف کارٹونز کی ضرورت نہیں پڑے گی . کیوںکہ بجائے اس کے ،کہ آپ کسی ایسی چیز پر اپنا وقت ضائع کریں، جس سے آپ کو کوئی فائدہ نہ ملے، اس سے بہتر ہے کہ آپ "ایک کہانی" سنیں۔
اس سے آپ کو کوئی اچھی چیز سیکھنے کو مل سکتی ہے، جیسے ایک مثبت سوچ ،جو آپ کی زندگی میں آپ کے کام آ سکتی ہے۔
تو آج ہم کون سی کہانی سن رہے ہیں ؟
"احمد نے جب سوچنا سیکھا "
ہممممم۔ ۔۔۔۔
چلیں اس کا مطلب ہے کہ یہ احمد کی کہانیاں ہیں ،اور احمد صاحب اب بڑے ہو رہے ہیں، مگر یہ قسط ، غیب سے مدد ؟ اس کا مطلب کیا ہے ؟
آج ہم اردو کا ایک نیا لفظ سیکھتے ہیں "غیب"
غیب کے معنی ہیں ، وہ جو آپ ابھی اپنی آنکھوں سے دیکھ نہیں سکتے یا آپ کو نظر نہیں آرہا ہو، مگر اپنی جگہ موجود ہو، جیسے میرا اور آپ کا دل. ہم اسے دیکھ تو نہیں سکتے نا ،وہ ایک طرح سے غیب میں ہے، آنکھوں سے چھپا ہوا ، ہماری چھاتی کے اندر، مگر ہم اسے محسوس تو کر سکتے ہیں ۔
چلیں ، آپ اپنے دل پر ہاتھ رکھیں اور ذرا سنے ... دھک دھک ، دھک دھک … دل کی دھڑکن آپ سن رہے ہیں ؟ یہ آپ کا دل ہے۔ مجھے تو اتنی دور سے نظر نہیں آ رہا ، مگر آپ تو زندہ ہیں نا.
اسی طرح ہم کبھی بغیر کسی بدلے کے کسی اور کی مدد کرتے ہیں، اور پھر بھول جاتے ہیں اور پھر کسی اور دن جاکر کبھی کہیں غیب سے ہمیں مدد بھیج دی جاتی ہے، اور ہمیں مدد مل جاتی ہے۔
تو ہمّت کبھی نہیں ہارتے ، Good ... okay ... بہت خوب ۔۔
"احمد نے جب سوچنا سیکھا"
ہم آج ایک ایسی کہانی کی ابتدا کر رہے ہیں جس سے آپ کو زندگی گزارنے کے مثبت پہلوؤں کو سمجھنے اور پھر ان کو سیکھنے میں مدد ملے گی. اور جس میں آپ کی سوچ کا امتحان بھی ہوگا. اور پھر آئے گا مزہ ، جب کہانی بھی اچھی ہو اور اس کا نتیجہ بھی اچھا نکلے۔
اس کہانی سیریز کا نام ہے "احمد نے جب سوچنا سیکھا "
اس میں آپ کو ہر قسط یا اپیسوڈ میں احمد کی ہی مختلف کہانیاں سننے کو ملیں گی اور یہ کہانی ایک آپ کے ہی جیسے بچے کی ہے جو ابھی اپنی زندگی شروع کر رہا ہے۔
احمد آموز کی عمر سات سال ہے ۔ اور وہ کلاس 2 میں ہے ۔ اور اپنے دونوں والدین کے ساتھ کراچی میں رہتا ہے ۔ احمد کے والد آموز شکور ایک کسان ہیں اور اپنا چھوٹا سا سبزیوں کا فارم چلاتے ہیں۔ احمد کی والدہ صبر آموز اپنے خاندان کی پرورش میں مصروف رہتی ہیں۔
کیونکہ احمد اپنے والدین کا اپنایا ہوا اکلوتا بچہ ہے اور کافی عرصے کے انتظار کے بعد خیبر پختونخوا سے کراچی شہر آیا ہے ، اور اب بڑا ہو رہا ہے ، احمد کی آنکھیں اور سوچ ، دونوں بہت سارے سوالات کے جوابات ڈھونڈ رہی ہیں ،اسی لیے احمد کے ابّو آموزشکور اور امی صبر آموز کوشش کر رہے ہیں کہ احمد کے ساتھ زیادہ وقت گزاریں تاکہ وہ اکیلا نہیں محسوس کرے اور وہ احمد کو ایک مثبت سوچ اور پختہ ارادہ بھرا شخص بننے میں احمد کی مدد کر سکیں ۔
ہرepisode میں آپ کو احمد کی روزانہ کی زندگی میں ہونے والے واقعات کی کہانیاں سننے کو ملیں گی ، جو شاید آپ نے خود اپنی زندگی میں بھی دیکھی ہوں یا انہی جیسے واقعات سے گزر رہے ہوں۔
آغاز -
یہ کہانی بھی ایک ایسے ہی دن کی طرح شروع ہوتی ہے ، جیسے روزانہ ایک نیا دن شروع ہوتا ہے، مگر اس دن جب اسکول کے بعد احمد گھر آیا تو اس کی امی نے کہا ؛
مسز آموز: ارے احمد بیٹا ۔۔ آج آپ امی کے ساتھ بازار چلو گے ؟۔۔ آپ ممی کی تھوڑی مدد بھی کر دیجئے گا۔ اور آپ کو جو کتاب چاہیے تھی وہ بھی لے لیں گے ۔
احمد : جی امی
احمد صاحب خوشی خوشی اپنی امی کے ساتھ بازار کے لئے روانہ ہوگئے.
جب راستے میں دور ایک فقیر نظر آیا اور اس نے احمد کو ہاتھ کے اشارے سے سلام کیا۔ تو احمد نے فوراً سوچنا شروع کر دیا۔ احمد کو محسوس ہوا کہ یہ انسان کسی مشکل میں ہے۔ چلتےچلتے احمد نے سوچا, میرے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے جو میں اس فقیر کو دے سکوں۔
احمد کے ننھے سے دل میں ایک سوال اٹھا ۔ میں اس فقیر کی کس طرح مدد کر سکتا ہوں؟
اسی وقت احمد کو یاد آیا کہ اس کی ایک جیب میں صرف دو ٹوفیاں باقی رہ گئی تھی ۔
احمد نے فوراً ہی دونوں ٹافیاں جیب سے نکال کر فقیر کے ہاتھ میں رکھ دیں ۔
فقیر نے احمد کو دیکھا ، اور پھر ٹوفیاں کو دیکھا ، اور پھر احمد کو دوبارہ دیکھا ۔
اور پھر ٹافیوں پر ایک لمبی نظر ڈالی۔
احمد نے سوچا ، یہ میں نے کیا کر دیا ، یہ فقیر بابا تو نا خوش لگ رہے ہیں۔
اس دوران احمد کی امی کی آنکھیں سکتے میں سب کچھ دیکھ رہی تھیں اور ہمت رکھتے ہوئے وہ کچھ نہ بولی ۔ فقیر نے نیچے دیکھتے ذرا سوچا اور پھر سر اُٹھا کے بولا۔
فقیر: ارے نوجوان میں تو آج یہی دعا مانگ رہا تھا کہ شاید کوئی بندہ مجھے ٹوفی دے گا۔ کیونکہ میں نے یہ کافی سالوں سے نہیں کھائی تھی ۔ اور آج ان کی مٹھاس بہت یاد آ رہی تھی۔
احمد نے یہ سنتے ایک سکون کا سانس لیا اور کھلکھلا دیا۔ پھر معصومیت سے بولا...
احمد : فقیر صاحب ، میرے پاس بس یہی تھیں۔
فقیر نے احمد کا شکریہ ادا کیا اور احمد نے مسکراتے ہوئے کہا ...
احمد : سلام ...
اور اپنے راستے چلتا بنا۔
احمد کی امی مسز آموز یہ سب بڑے غور سے دیکھ رہی تھیں،کہ چند منٹوں میں یہ سب کیا ہوا، اور ابھی تک ایک لفظ بھی نہیں بولی تھیں، انہوں نے احمد سے پوچھا ؛
مسزآموز: احمد بیٹا ۔۔ آپ نے مجھ سے کچھ پیسے کیوں نہیں مانگے؟ میں آپ کو کچھ روپے دے دیتی تاکہ آپ فقیر کی اور مدد کر سکیں۔
احمد صاحب اپنی ممی کا ہاتھ پکڑے مسکراتے چلے جارہے تھے ۔ اور اس سوچ میں خوش تھے کہ آج انہوں نے کسی کی مدد کی ۔ احمد کی امی مسز آموز نے پھر دوبارہ پوچھا ؛
مسزآ موز : ?Ahmad, are you listening
احمد ہنستے ہوئے کہتا ہے ۔
احمد: امی یہ سب بہت جلدی سے ہوا۔ بس میں چاہتا تھا کہ میں اُن فقیر صاحب کی مدد کروں
مگرکسی اور کی مدد کے بغیر ۔ مگر میرے پاس تو کچھ بھی نہیں تھا ، پر میں بھول گیا تھا کہ میرے پاس کچھ ٹافیاں باقی رہ گئی تھی۔ میری اندر والی جیب میں ، جیسے ہی مجھے خیال آیا تو میں نے انہیں دے دی ۔
مسز آموز نے احمد کی طرف دیکھ کر کہا ؛
مسزآموز: شاباش بیٹا ۔۔ یہ تو آپ کی بڑی اچھی سوچ تھی مگر آپ یہ کرنے سے پہلے امی کو بھی بتا سکتے تھے کیونکہ میں ایک دم سے ڈر گئی تھی ۔
احمد: sorry امی ۔۔۔ آئندہ نہیں کروں گا اور امی آپ نے دیکھا وہ فقیر صاحب کتنے خوش ہوئے تھے ۔۔ I was so happy, Ammi
اپنے چھوٹے بچے کی یہ چھوٹی سی پیار بھری کوشش دیکھ کر مسز آموز کو بہت اچھا لگا اور احمد کو پیار سے اپنے قریب کھینچتے ہوئے دونوں ماں بیٹا اپنے راستے چل دیے۔
تھوڑی دیر میں مسز آموز اپنی shopping پوری کر لیتی ہیں، اور احمد کو اس کی کتاب بھی دلا دیتی ہیں اور پھر کہتی ہیں؛
مسز آموز: احمد ہم بھلا گھر واپس کیسے جا سکتے ہیں بغیر آیسکریم لئے؟
احمد اپنی ماں کی یہ بات سنتے ہی خوشی سے اچھل جاتا ہے ۔ کیونکہ احمد کو آئسکریم بہت پسند ہے۔
احمد: Yay! Ice cream time
احمد کہتا ہے ؛
احمد: امی Mango Vanilla اور Chocolate والی لیجئے گا ۔
مسز آموز: Okay بیٹا .
گھر پہنچتے ہی احمد اپنے والد آموزشکور کو دروازے پر کھڑا دیکھتا ہے۔ اور بھاگتے ہوئے خوشی سے اپنے ابّو کی جانب لپکتا ہے اور انہیں گلے لگا لیتا ہے۔
احمد : ابّو...
آموز: سلام بیٹا احمد۔ آج آپ کی اور آپ کی امی کی بہت یاد آرہی تھی تو فوراً گھر آگیا۔
احمد : ابّو آج آپ کام سے جلدی آگئے ۔ میں آپ کو دیکھ کر بہت خوش ہوں۔ Thank you Abbu
احمد کے ابّو آموز شکور اپنے بیٹے کو گلے لگاتے ہیں ، اور پھر سر پر پیار کرتے ہوئے کہتے ہیں ؛
آموزشکور: احمد بیٹا۔۔ میں بھی آپ کو خوش دیکھ کر بہت خوش ہو رہا ہوں ۔ and surprise...
میں نے واپس آتے ہوئے راستے میں گرم گرم مزے دار بریانی لے لی تھی ۔۔ چلو اب تینوں ساتھ کھانا کھاتے ہیں۔
احمد کی والدہ مسز صبر آموز یہ سب کچھ دیکھ کر مسکراتی ہیں اور کہتی ہیں ؛
مسز آموز: تو پھر چلیں۔ کیوںکہ dessert کی تیاری تو ہم دونوں ماں بیٹے نے پہلے سے ہی کر رکھی ہے ۔ Chocolate Vanilla and Mango Ice Cream
اور پھر تینوں کھانے کی میز کی طرف چلے جاتے ہیں ۔
احمد کی صبح ہرصبح کی طرح مسکراتے ہوئے ہوتی ہے۔ احمد صاحب اپنی دعا پڑھتے ہیں، اور بستر سے جیسے ہی نکلتے ہیں ۔ تو ان کے تکیے کے نیچے سے ایک تھیلی زمین پر گر جاتی ہے ۔ احمد اسے اٹھا کر دیکھتا ہے اور کہتا ہے ؛
احمد: یہ تو میری نہیں لگتی۔۔۔
پھر تھوڑا سوچتا ہے...
اور پھر آہستہ سے تھیلی کھولتا ہے...
وہ تھیلی... ٹافیوں سے بھری ہوتی ہے۔
اختتام -
اگر آپ یہ کہانی کسی بڑے کے ساتھ سن رہے ہیں ، پھر تو اور بھی مزے کی بات ہے ، کیونکہ اب آپ دونوں مل کر ایک دوسرے کے ساتھ کچھ دیر ایک کوئز کھیل سکتے ہیں، اور ایک دوسرے سے پوچھ سکتے ہیں کہ آپ دونوں کو اس کہانی سے کیا سیکھنے کو ملا ۔
ہمیں اپنی رائے ضرور دیجئے گا ۔۔۔
اگلی کہانی تک کے لئے آپ سب کو
سلام .
آپ سن رہے ہیں "احمد نے جب سوچنا سیکھا "
Comments